मुहम्मद उमर कैरानवी: shah-wali-ullah-mohaddis-delhvi-urdu

Monday, March 19, 2018

shah-wali-ullah-mohaddis-delhvi-urdu


 تحریکِ آزادی اور فکری انقلاب کے داعی
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ 

آزادیِ وطن کے بعد ایک مخصوص تنگ نظر ذہنیت نے اکثریتی سیاست کا مزاج بن کر ملک کی دوسری اکثریت ہندوستانی مسلمانوں کو انسانی زندگی کے ہر میدان میں پیچھے رکھنے کے لیے نہ صرف انہیں یکساں آئینی حقوق سے محروم کرنے کی کوشش کی ہے بلکہ ان کی زبان، مذہبی، سیاسی اقدار تمدنی تشخص اور شناخت کو مٹانے کی طے شدہ سازش پر بھی عمل کیاہے۔ اسی ذہنیت نے مسلمانوں کے شاندار ماضی اور درخشاں تاریخ کو آنے والی نسلوں تک نہ پہنچنے دینے کی منظم کوشش کی ہے۔ ہندوستانی ملت اسلامیہ پر یہ ایک ایسی کاری ضرب ہے جس کا درد آج ہر باشعور مسلمان محسوس کررہاہے۔ اس روحانی اذیت کو محسوس کرتے ہوئے حضرت مولانا سید علی میاں ندوی علیہ الرحمہ نے ایک خطبہ میں فرمایاتھا۔
Related image’’ہم کس جرم میں اپنی انسانی عظمت، روحانی بلندی اور پیشوائی کے اس درخشاں ورق کو ہندوستان کی قومی تاریخ سے خارج کرتے ہیں اور کس قصور میں اپنے نوجوانوں کو ان کے کارناموں سے محروم رکھتے ہیں۔ آج ہندوستان میں اس دور کو نظر انداز کرنے کا عمومی رجحان پایا جاتاہے، ہماری جدید تاریخوں میں، ہمارے نصاب کی کتابوں میں، اس کا شایان شان تذکرہ اور ان کی بلند ومنفرد شخصیتوں کا تعارف نہیں ملتا اس سے معلوم ہوتاہے کہ ہماری حب الوطنی اور ہمارے نیشنلزم میں ابھی بہت کچھ کمی اور خامی ہے۔۔۔‘‘
بد قسمتی سے آزادی وطن کے بعد ہمارے ملک میں یہ کھیل کھل کر کھیلا گیا۔مادر وطن کے لیے لازوال قربانیاں پیش کرنے والے مسلم ہیروز کو نظر انداز کرکے تصویر کے صرف ایک رخ کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی، اس کا رِ زشت میں ایسے ایسے افراد اور تنظیموں کو بالادستی حاصل ہوئی جن کاوطن کی آزادی اور تعمیر وترقی سے کوئی تعلق کبھی نہیں رہا۔ یہ تنگ نظر سیاست شاید یہ بھول گئی کہ کائناتِ انسانی میں سب سے طاقتور شے ہے سچائی جسے جس قدر دبایا جائے وہ اور زیادہ شدت کے ساتھ ابھرتی ہے۔ ہندوستان کی تاریخ آزادی کا سب سے بڑا سچ یہ ہے کہ اس کا آغاز اس مسلمان بزرگ، عالم باعمل، مفکر انسانیت، مفسرِ حق وصداقت اور فخر قوم و وطن کے فکری جہاد سے ہوتا ہے جس کا نام نامی ہے حضرت شاہ ولی اللہ محد ث دہلویؒ ۔ آپ کا فکری جہاد ایک انقلابی تحریک کی صورت میں ہندو ستانیت کے بے جان قالب میں روحِ حریت بن کر دنیا کے سامنے آیا۔
حضرت شاہ ولی اللہؒ نے اس نازک دور میں انسانی آزادی کے سب سے بڑے ضامن مذہب اسلام کی الوہی تعلیمات کی لو سے شمع آزادی کو روشن کیا جب عظیم مغلیہ سلطنت کا شیرازہ منتشر ہوچکا تھا، نادرشاہ اور احمد شاہ ابدالی کے حملے اس سرزمین کو لہولہان کرچکے تھے، مرہٹے، جاٹ اور سکھ مسلمانوں کے خلاف نبردآزماتھے اور اس خانہ جنگی اور افراتفری کا فائدہ اٹھانے میں مصروف تھا برطانوی قزاقوں کا گروہ یعنی ایسٹ انڈیا کمپنی۔ پرتگالی اور فرانسیسی بھی سونے کی اس چڑیا کو اپنے دام ہوس میں جکڑنے کے لیے سرگرداں تھے۔ یہ شاطر اور سازشی غیر ملکی طاقتیں ہندوستان کو لوٹنے کھسوٹنے میں مصروف تھیں۔ 
’’مسلمان صدیوں سے اس ملک کے مالک رہے تھے اس لیے وہی ان طاقتوں کے نشانے پر تھے لیکن ہندوستانی سماج کا کوئی طبقہ تباہی وبربادی سے محفوظ نہیں تھا۔ بقول جناب فیصل احمد ندوی مصنف (تحریک آزادی میں علماء کا کردار) شاہ صاحب کادور ہندوستان کی اسلامی تاریخ کا بدترین اور تاریک ترین زمانہ ہے۔ شاہ صاحب نے اپنی زندگی میں کئی بادشاہوں کو تخت دہلی پر دیکھا، بہتر سے بہتر اور بد سے بدتر، اور نگ زیب تاشاہ عالم، اس دوران اخلاقی بگاڑ اپنی آخری حد کو پہنچ چکاتھا، وہ امرا کا داد عیش دینا، شاہزادوں کا گل چھرے اڑانا، وہ تن آسانی وآرام طلبی،تعیش کوشی، دولت پرستی، خود غرضی اوربے ایمانی کہ شیطان بھی شرما جائے۔ دوسری طرف سیاسی داؤ پیچ اور مکروفریب، انتشار واضطراب، انار کی اور بدنظمی کی کوئی انتہا نہیں تھی۔ سادات بارہہ کا تسلط اور آخری درجہ کا ظلم وستم، مرہٹوں کازور،جاٹوں کا اثر،سکھوں کی شورش نادرشاہ کا حملہ اور دہلی کا قتل عام، عام سیاستِ ملکی میں روہیلوں کی شرکت اور اقدار میں ان کا عمل دخل، ایرانی امراء کی باغیانہ کوششیں اور حکومت کے خلاف سازشیں، اخیر میں انگریزوں کی للچائی ہوئی نظر یں اور تخت سلطنت پر قبضہ کی تدبیریں، ان سب چیزوں نے شاہ صاحب جیسے اللہ والے بزرگ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ‘‘
ملک اور عوام کی زبوں حالی نے آپ کو ذہنی وروحانی اضطراب میں مبتلا کردیا۔ اسی حالت میں سنہ1728میں آپ حجاز مقدس تشریف لے گئے۔ آپ نے دو سال وہاں رہ کر حج وعمرہ کے لیے یورپ اور ایشیا سے آنے والے زائرین کے ذریعے ان ملکوں سے متعلق پوری واقفیت حاصل کی۔ترکی کی اسلامی حکومت کو اگرچہ سماجی خرابیوں کا گھن لگ چکاتھا مگر پھر بھی وہ اس زمانہ میں ایشیا کی سب سے بڑی اسلامی حکومت تھی۔ تمام مشرق وسطیٰ پر اس کے اقتدار کا پرچم لہرارہاتھا،بحر عرب میں عدن تک ترکی کا قبضہ تھا، یورپ اور افریقہ کے بھی بہت سے حصے اس کے اختیار میں تھے۔ شاہ صاحب نے اس سب سے بڑی اسلامی حکومت کے اندرونی حالات کا گہری نظر سے مطالعہ کیا۔ نامور مورخ،فقیہ اور محدث حضرت مولانا سید محمد میاںؒ اپنی شہرہ آفاق کتاب ’علماء ہند کا شاندار ‘ماضی میں لکھتے ہیں:
’’اسلامی ممالک کا جائزہ لینے کے بعد آپ کے گہرے غور و خوض اور اعلیٰ تدبر نے فیصلہ کیا کہ جو کچھ سماجی معاشی یا اقتصادی تباہی اس وقت موجود ہے اس کا اصل سبب ملوکیت اور شہنشاہیت ہے۔ اپنے سفر حجاز میں آپ کے ضمیرکی آواز نے یہ فیصلہ بھی سنادیا کہ ان تباہیوں اور بربادیوں کا واحد علاج ’فک کل‘ نظام ہے یعنی ایسا ہمہ گیر اور مکمل انقلاب جو سماج کے معاشی، سیاسی، اقتصادی غرض کہ ہر ایک ڈھانچے کو بدل ڈالے کیونکہ اس وقت کا ہر ایک نظام خواہ اس کا تعلق کسی بھی شعبہ سے ہو، شہنشاہیت کاپر وردہ ہے اور وہ امراض جو شہنشاہیت کے ساتھ لازم ہوتے ہیں ہر شعبہ حیات میں سرایت کرچکے ہیں، پس کوئی اصلاح اس کے بغیر ممکن نہیں کہ ہر نظام کہنہ کو منہدم کرکے اس کی جگہ نظام نو تعمیر کیا جائے۔‘‘
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات گرامی کو صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں عوامی انقلاب اورقوموں کی آزادی کا اولین رہنما کہا جاسکتاہے۔کیونکہ حضرت نے اس زمانہ میں اسلامی جہاد کی حقیقی روح کے ساتھ انقلابِ نو کا عملی اور فکری نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیاجب انقلاب فرانس (1789)کو رونما ہونے میں 50سال باقی تھے جسے تاریخ عالم میں اولین عوامی انقلاب کی حیثیت حاصل ہے۔ شاہ صاحب نے ہندوستان کی سرزمین میں اقتصادیات اور سیاسیات کے وہ اصول مرتب فرمائے جو آج بھی اقوام عالم کے لیے نشانِ راہ ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کارل مارکس اور اینجل کو پیدا ہونے میں پوری ایک صدی باقی تھی۔ 
ہندوستان کو بجا طور پر فخر ہے کہ شاہ صاحب نے اپنی مشہور عالم کتاب حجۃ اللہ البالغہ، اس دور میں تصنیف فرمائی جب اقوام عالم ان تعمیری واصلاحی نظریات سے آگاہ نہیں تھیں۔ بلاشبہ یہ انقلابی نظریات اسلامی اور قرآنی تعلیمات کی روشنی میں اپنے عہد کی اس تاریخ سازشخصیت نے مرتب کیے:
(1) دولت کی اصل بنیاد محنت ہے، مزدور کا شتکار قوت کا سبہ ہیں، باہمی تعاون شہریت کی روح رواں ہے۔ جب تک کوئی شخص ملک اور قوم کے لیے کوئی کام نہ کرے ملک کی دولت میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔
(2) جوا، سٹہ اور عیاشی کے اڈے ختم کیے جائیں جن کی موجودگی میں تقسیم دولت کا صحیح نظام قائم نہیں ہوسکتا اوربجائے اس کے کہ قوم اور ملک کی دولت میں اضافہ ہو، وہ دولت بہت سی جیبوں سے نکل ایک طرف سمٹ آتی ہے۔
(3) مزدور اور کاشتکار اور جو لوگ ملک اور قوم کے لیے دماغی کام کریں دولت کے اصل مستحق ہیں۔ ان کی ترقی اور خوشحالی ملک اور قوم کی خوشحالی ہے۔ جو نظام ان قوتوں کو دبائے وہ ملک کے لیے خطرہ ہے،اس کو ختم کیا جانا چاہئے۔
(4) جو سماج محنت کی صحیح قیمت ادا نہ کرے، مزدروں اور کسانوں پر بھاری ٹیکس لگائے قوم کا دشمن ہے۔ اس کو ختم ہونا چاہئے۔
(5) ضرورت مند مزدور کی رضا مندی قابل اعتبار نہیں، جب تک کہ اس کی محنت کی صحیح قیمت ادا نہ کی جائے جو امداد باہمی کے اصول پر لازم ہوتی ہے۔
(6) جو پیدا وار یا آمدنی تعاون باہمی کے اصول پر نہ ہو وہ خلاف قانون ہے۔ 
(7) کام کے اوقات مقرر کیے جائیں، مزدروں کو اتنا وقت ضرور ملنا چاہئے کہ وہ اپنی روحانی واخلاقی اصلاح کرسکیں اور ان کے اندر مستقبل کے متعلق غور وفکر کی صلاحیت پیدا ہوسکے۔
(8) تعاون باہمی کا سب سے بڑا ذریعہ تجارت ہے، لہٰذااس کو تعاون کے اصول پر ہی جاری رہنا چاہئے۔ جس طرح تاجروں کے لیے جائز نہیں کہ وہ بلیک مارکیٹ یا غلط قسم کی مسابقت سے روح تعاون کو نقصان پہنچائیں، ایسے ہی حکومت کے لیے یہ درست نہیں کہ بھاری ٹیکس لگا کر تجارت کے فروغ وترقی میں رکاوٹ پیدا کرے یا رخنہ ڈالے۔
(9) وہ کاروبار جو دولت کی گردش کو کسی خاص طبقہ میں منحصر کردے ملک کے لیے تباہ کن ہے۔
(10) وہ شاہانہ نظام زندگی جس میں چند اشخاص یا چند خاندانوں کی عیش وعشرت کے سبب سے دولت کی صحیح تقسیم میں خلل واقع ہو، اس کا مستحق ہے کہ اس کو جلد از جلد ختم کرکے عوام کی مصیبت ختم کی جائے اور ان کی مساویانہ نظام زندگی کا موقع دیا جائے۔
(11) زمین کا مالک حقیقی اللہ (اور ظاہری نظام کے لحاظ سے اسٹیٹ)ہے۔ باشندگان ملک کی حیثیت وہ ہے جو کسی مسافر خانہ میں ٹھہرنے والوں کی۔ ملکیت کا مطلب ہے کہ اس کے حق انتفاع میں دوسرے کی دخل اندازی قانوناً ممنوع ہو۔
(12) تمام انسان برابر ہیں، کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنے آپ کو مالک ملک الناس،مالکِ قوم یا انسانوں کی گرونوں کا مالک تصور کرے، نہ کسی کے لیے جائز ہے کہ وہ کسی صاحب اقتدار کے لیے ایسے الفاظ استعمال کرے۔
(13) اسٹیٹ کے سربراہ کی وہ حیثیت ہے جو کسی وقف کے متولی کی ہے، وقت کامتولی اگر ضرورت مند ہو تو اتنا وظیفہ لے سکتاہے ملک کے عام باشندے کی طرح زندگی گزار سکے۔
(14) روٹی کپڑا اور مکان اور ایسی استطاعت کہ نکاح کرسکے اور بچوں کی تعلیم وتربیت کرسکے، بلالحاظ مذہب ونسل ہر انسان کا پیدا ئشی حق ہے۔
(15) اسی طرح مذہب، رنگ ونسل کے کسی تفاوت کے بغیر باشندگان ملک کے معاملات میں یکسانیت کے ساتھ عدل وانصاف، ان کے جان ومال کا تحفظ، ان کی عزت وناموس کی حفاظت، حق ملکیت میں آزادی، حقوق شہریت میں یکسانیت ہر باشندۂ ملک کا بنیادی حق ہے۔
(16) اپنی زبان وتہذیب کو زندہ رکھنا ہر ایک فرقہ کا بنیادی حق ہے۔ بین الاقوامی نظام کے بارے میں عظیم انقلابی مفکر حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے رہنما اصول وضع فرمائے ہیں ’’خود مختار علاقے بنائے جائیں، یہ خود مختار اکائیاں اپنے معاملات میں آزاد ہوں گی۔ ہر یونٹ میں اتنی طاقت ضرور ہونی چاہئے کہ اپنے جیسے یونٹ کے اقدام کا مقابلہ کرسکے۔ یہ تمام اکائیاں ایک ایسے بین الاقوامی نظام (بلاک) میں منسلک ہوں جو فوجی طاقت کے لحاظ سے اقتدار اعلیٰ کا مالک ہو، اس کو یہ حق نہیں ہوگا کہ کسی مخصوص مذہب یا مخصوص تہذیب کو کسی دیگر یونٹ پر لادسکے البتہ اس کا یہ فرض ضرور ہوگا کہ کسی قوم کے یونٹ کو یہ موقع نہ دے کہ کسی دوسری قوم یا تہذیب پر حملہ کرسکے۔‘‘
شاہ صاحب نے آج سے 3صدی قبل ہندوستانی سیکولرزم یعنی احترام کل مذاہب کا انقلابی نظریہ پیش کیاتھا:
’’دین اور سچائی کی بنیاد ایک ہے، اس کے پیش کرنے والے ایک سلسلہ کی کڑیاں ہیں، والیان صداقت ہر ملک اور قوم میں گزرے ہیں، ان سب کا احترام ضروری ہے۔ سچائی اور دین کے بنیادی اصول تمام فرقوں میں تقریباً تسلیم شدہ ہیں، مثلاً اپنے پروردگار کی عبادت، اس کے لیے نذر ونیاز، صدقہ وخیرات اور روزہ وغیرہ، یہ سب کام اچھے ہیں، البتہ عملی صورتوں میں اختلاف ہے۔ ساری مہذب دنیا کے سماجی اصول اور ان کا منشا ومقصد ایک ہے مثلاً ہر ایک مذہب اور فرقہ جنسی انارکی کوناپسند اور اخلاقی جرم قرار دیتاہے۔ جسمانی تعلقات کے لیے مرد اور عورت میں ایک معاہدہ ہر فرقہ میں ضروری ہے البتہ اس کی صورتیں مختلف ہیں۔ہر فرقہ اپنے مرُدوں کودنیا کی نظروں سے غائب کردینا ضروری سمجھتاہے، اختلاف اس میں ہے کہ زمین میں دفن کرکے نظروں سے اوجھل کردیا جائے یا جلا کر۔‘‘(حجتہ اللہ البالغہ)
شاہ ؒ صاحب جہاد کو ایک مقدس فریضہ قرار دیتے ہیں، آپ نے جہاد کے معنی یہ بتا ئے ہیں کہ مقدس اصول کے لیے انسان اپنے اندر جذبۂ فدائیت پیدا کرے یہاں تک کہ وہ اپنی ہستی مقدس اصول کے لیے فنا کردے۔
اپنے دور کے اس عہد ساز مدبر اعظم نے اچھی طرح سمجھ لیاتھا کہ شہنشاہیت کا زمانہ ختم ہوااس وقت کے ہندوستان کی صورت حال ان کے سامنے تھی۔ انگریزوں کی چیرہ دستیاں بڑھ رہی تھیں، وطن کی آزادی خطرے میں تھی، آپ نے وقت کی اس نازک صورتِ حال میں اپنی اس ہمہ گیر تحریک کا آغاز کیا جو درحقیقت ہندوستان کی تحریک آزادی کی تاریخ کا پہلا قدم تھا۔ان کے پیش نظر پوراہندوستان تھا۔ چونکہ مرکزی ہندوستان کی قیادت اس وقت مسلمانوں کے ہاتھوں میں تھی، اس لیے یہ قدرتی امر ہے کہ شاہ صاحب نے مسلمانوں سے خطاب کیا۔ لیکن شاہ صاحب کی دعوت کے اصول عام انسانیت کے اصول تھے۔ ان کا زور مذہب کی رسوم پر نہیں بلکہ مذہب کی روح پر تھا،ان کی ظاہری شکل پر نہیں بلکہ قانون کی جان یعنی عدل وانصاف پر تھا۔ مرہٹوں جاٹوں سکھوں اور اس عہد کی چھوٹی چھوٹی تحریکیں اپنی اپنی جگہ پر ٹھیک ہوں گی لیکن ان میں سے کسی تحریک میں اتنی وسعت اور ہمہ گیر ی نہیں تھی کہ وہ ہندوستان کی مرکزیت اور وحدت کو بحال کرسکنے کی تدبیر سوچتی۔ شاہ صاحب اپنے مجوزہ نظام میں اکبر، جہانگیر، شاہجہاں اور اورنگ زیب کے زمانے کی مرکزیت اور سلطنت ہند کے اقتدار اعلیٰ کو بحال دیکھنا چاہتے تھے لیکن اس طرح سے کہ مطلق العنان بادشاہوں کے بجائے انصاف کی حکومت ہو۔‘‘ (شاہ ولی اللہ اور ان کی سیاسی تحریک از مولانا محمد سرور)
حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ فوجی انقلاب کے حامی تھے لیکن وہ فوجی انقلاب جو جہاد کے اصول پر ہو جس کا نصب العین سب سے بہتر وبرتر ہو اور جس کا ہر مجاہد ذاتی اغراض سے یہاں تک بلند ہو کہ خود اپنی شخصیت کو فنا کرچکاہو، اس کا ہر اقدام صرف خدا کے لیے ہو جس کی حدود یہ ہیں کہ ساری مخلوق خدا کا کنبہ ہے، سب سے بہتر وہ ہے جو خدا کے کنبہ کی بھلائی اور بہتری کے لیے قربانی دے،اس لیے نہیں کہ خلق اللہ اس کا احسان مانے یا اس کی تاریخ روشن ہو، مجاہد نصب العین کے لیے قربان ہوجانے کو ابدی زندگی تصورکرے۔ ایسا انقلاب پیشہ ور سپاہیوں کے ذریعہ نہیں ہوسکتا بلکہ ان پرخلوص رضا کاروں کے ذریعہ ہوسکتاہے جنہیں اس کی تربیت خاص طور پر دی گئی ہو جو نصب العین کو سمجھیں اور اصلاحی نظریات پر پہلے اپنے آپ کو ہموار کریں اس کے بعد ان کو کامیاب بنانے کے لیے قربان ہوجانا اپنی زندگی کا مقصد بنالیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ ؒ نے سب سے پہلے ہی خدمت انجام دی، آپ نے اپنی ہمہ گیر تحریک کا ہیڈکوارٹر دہلی میں قائم کیا، دہلی اس زمانہ میں بھی ایسا شہر تھا جہاں بہت سی قوموں کے لوگ رہتے تھے۔ظاہر ہے ایسے شہر سے اٹھنے والی کسی بھی تحریک کا اثر دور دور تک پھیل سکتاتھا۔ تحریک کے اس اساسی مرکز کی سربراہی شاہ صاحبؒ نے اپنے لائق فرزند اور عظیم مجاہد آزادی حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی ؒ کو سونپی۔
تحریک کا دوسرااہم مرکز رائے بریلی میں واقع تکیہ شاہ علم اللہ میں قائم فرمایا، یہ مقدس مقام پہلے سے ہی اسلام کی تعلیم وترویج کا مرکز تھا۔ یہی وہ ولی اللّٰہی مرکز تحریک ہے جہاں سے سید احمد شہیدؒ نے جہاد آزادی اور جذب�ۂ حریت کا تاریخ ساز پرچم بلند کیاتھا۔ نجیب آباد، لکھنؤ اور ٹھٹھہ (سندھ)وغیرہ مقامات پر بھی شاہ صاحب نے اپنی انقلابی تحریک کے مراکز قائم کیے جہاں سے ذہنی، فکری، اور عملی تربیت یافتہ مجاہدین کی بڑی تعداد نے پورے ملک میں ایک پاکیزہ اورصحت مند انقلاب کی روح پھونک دی۔ ولی اللّٰہی تحریک ایک مکمل پیغام انقلاب تھا جو صرف بادشاہ اور بادشاہ پرستوں کے لیے ہی پیغام فنا نہیں تھا بلکہ ان طاقتو ں کے لیے بھی موت کا پیغام تھا جو سلطنت مغلیہ کی جانشین بننا چاہتی تھیں یا پیشہ ور سپاہیوں کی مدد سے ملک کے چپے چپے پر جاگیر دارانہ نظام کے جھنڈے گاڑے ہوئے تھیں۔ بدعنوان بادشاہ، نوا بین،امر اء اور جاگیرداروں کے علاوہ شاہ صاحبؒ کی تحریک دنیا پسند علماء، مشائخ،شعراء ودانشوروں کے خلاف بھی ایک مؤثر آواز تھی۔ چونکہ عوام کا بڑا طبقہ ایسے ہی عناصر کے زیر اثر تھا اس لے آپ کی اصلاحی وانقلابی تحریک کی قدم قدم پر مخالفت ہوئی لیکن آپ نے مخالفت کی شدید آندھیوں میں ہمہ گیر انقلاب کا چراغ روشن کیا۔ دنیا کے معروف انقلابی مارکس اینجلس اور لینن ایسے دور میں ہوئے جب پریس کی طاقت نے بہت کم وقت میں ان کا پیغام کرۂ ارض کے تمام انسانوں تک پہنچادیا۔ لیکن جس وقت شاہ صاحبؒ نہ صرف ہندوستان بلکہ پورے عالم انسانیت کوملوکیت سے آزادی اور حریتِ انسانی کا پیغام دینا چاہ رہے تھے،انہیں ایسی سہولیات میسر نہ تھیں۔ اس وقت ترویج واشاعت کا ذریعہ تقاریر،تربیتی مراکز اور قلمی تحریریں ہی تھیں۔دہلی پر مرہٹوں کی یلغار، نادرشاہ کا خوفناک قتل عام، پانی پت کے میدان میں احمد شاہ ابدالی کی مرہٹوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ عظیم جیسے طوفانوں سے گزرنے والے شاہ صاحبؒ نے اپنے انقلابی نظریات کو کبھی ترجمہ قرآن کریم کے رنگ میں پیش کیا، کبھی تصوف روحانیت اور اسلامی فلسفہ کو وسیلۂ اظہار بنایا تو کبھی پندوموعظت کا پیرا یہ اختیار کیا یا اسلامی تاریخ اور سیرتِ صحابہ کرام کا سہارا لیا۔ لیکن اس احتیاط کے باوجود آپ اور آپ کے جانشین قاتلانہ حملوں اور وحشیانہ سزاؤں سے نہ بچ سکے۔ شاہ صاحب نے قرآن کریم کا اس وقت مروج زبان فارسی میں ترجمہ کیا تو وہ دراصل آپ کے اخلاقی اور مذہبی انقلاب کا پہلا قدم تھا کیونکہ شاہ صاحبؒ کے دور میں قرآن کریم کے ترجمہ وتفسیر کے ذریعے قرآنی علوم کی ترویج کو بے حد خطرناک سمجھا جاتاتھا۔ جب شاہ صاحبؒ نے قرآن کریم کا فارسی ترجمہ کیا تو دہلی کی مسجد فتح پوری پر علمائے سو ء کی طرف سے ان پرقاتلانہ حملہ کرایاگیا اور یہ پروپیگنڈہ کیاگیا کہ جب دفتروں کے محرر قرآن کو جاننے لگیں گے تو علماء کی کیا ضرورت باقی رہے گی اور ان کا اقتدار کیسے قائم رہے گا؟(تحریک شیخ الہند)
شاہ ولی اللہؒ کی انقلابی تحریک میں ہندو مسلم کی تفریق نہیں تھی اور بقول حضرت مولانا عبید اللہ سندھی ؒ :
’’ہندو نوجوانوں میں بھگوت گیتا کی تعلیمات سے ہی اسپرٹ پیدا کی جاسکتی تھی مگر اس زمانہ کی سیاست کے لحاظ سے انقلاب کا مختصر راستہ یہی تھا کہ مسلم نوجوانوں میں جو شاہ صاحب ؒ سے زیادہ قریب تھے،صحیح احساس اور قوت عمل پیدا کردی جائے۔ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ پورے شمالی ہند اور جنوبی ہند کے بڑے حصے میں برسراقتدار مسلمان فن سپہ گری میں ماہر اور فوجی صلاحیت وقوت کے مالک تھے اور وسطی ہند کی راجپوت ریاستیں مسلمانوں کا اقتدار اعلیٰ تسلیم کیے ہوئے تھیں۔ ان کے راجہ سلطنت مغلیہ کے منصب دار اور دربار کے ایرانی تورانی گر وپوں میں شامل تھے چنانچہ اس نازک دور میں کسی ہندو ریاست نے سلطنت مغلیہ کے ٹمٹماتے چراغ کو گل کرنے کی کوشش نہیں کی، اس دور کی مرہٹی طاقتوں کے بارے میں بھی یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ وہ مغل بادشاہ کو ختم کرنے کے درپے تھیں یا دربار میں اپنا اقتدار تسلیم کرانا چاہتی تھیں۔ پھر 1857ء میں تو مرہٹوں کی باقی ماندہ طاقت نے یہ تسلیم کرہی لیاتھا کہ انقلاب کا راستہ صرف یہی ہے کہ سلطنت مغلیہ کے کسی وارث کو حکمراں تسلیم کیا جائے۔لہٰذا اخلاق اور مذہب دونوں کا تقاضہ تھا کہ انقلاب کے لیے سب سے پہلے اس طبقے کی تربیت کی جائے جس پر سارا ملک اعتمادکیے ہوئے تھا، چونکہ ایشیا میں زیادہ تر حصہ پر مسلمان برسراقتدار تھے اس لیے مسلم نوجوانوں کی اصلاح سے پورے ایشیا کی اصلاح ہوسکتی تھی اوریہ قوت یوروپ کے امنڈتے ہوئے سیلاب کو روک سکتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک ولی اللّٰہی کے سائے میں جو جماعت آزادی کی جنگ میں سب سے پہلے سامنے آئی اس میں صرف مسلمان مجاہدین آزادی کے نام نمایاں ہوئے۔‘‘ (علماء ہند کا شاندار ماضی)
سنہ 1762میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی وفات ہوگئی اپنے تاریخی وصیت نامے میں شاہ صاحبؒ نے دردمندانہ لفظوں میں فرمایاتھا۔ ’’ہم لوگ اجنبی مسافر لوگ ہیں، ہمارے باپ دادے اس ملک میں بحالت مسافرت یہاں داخل ہوئے اور پھر وہی حالت واپس ہوگئی۔‘‘
شاہ صاحبؒ دیکھ رہے تھے کہ اگر یہی لیل ونہار ہیں تو اس ملک میں اب دین اور اہل دین کا خدا ہی حافظ ہے، جو کچھ ہونے والا تھا ان کی دوربین نظر میں روشن تھا، لیکن اس وقت تک دہلی پر انگریزوں کا غلبہ نہیں ہواتھااور حالات اس قدر سنگین نہیں ہوئے تھے کہ شاہ صاحب ؒ اپنے پروگرام، عزائم اور نظریہ جہاد کے مطابق انگریزوں کے خلاف عملی جدوجہد کا آغاز کرتے اور برطانوی در اندازوں کے خلاف صریحی جہاد کا فتویٰ صادر فرماتے۔ یہ شرف ان کے صاحبزادے اور وارث شاہ عبدالعزیز ؒ کے لیے مقدرتھا۔ مولانا سعید احمد اکبر آبادی رقم طراز ہیں:
’’اگرچہ ہماری نظر سے کہیں نہیں گزرا کہ شاہ صاحب ؒ نے ملک کو دارالحرب کہا ہو، لیکن وہ ملک کا جو نقشہ کھینچتے ہیں اور جو حالات بیان کرتے ہیں وہ ہر گز کسی دارالسلام کے نہیں ہوسکتے اور اس بنا پر بے تکلف یہ کہا جاسکتاہے کہ ان کے نیم شعوری ذہن میں ہندوستان کے دارالحرب میں منتقل ہوجانے کاتصور موجود تھا۔‘‘
اس انقلابی نظریہ کو حضرت شاہ عبدالعزیز ؒ نے عملی طور پر پیش کیا، لیکن جیسا کہ جناب کے ایم اشرف نے لکھا ہے کہ: ’’شاہ ولی اللہ ؒ اٹھارہویں صدی کے احیاء اسلام کے ممتاز محرکوں میں ہیں جنہوں نے برطانوی حکومت کے خلاف پے درپے شورشوں کی قیادت کی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتاکہ شاہ ولی اللہ ؒ کی تحریک ہندوستان کی تحریک آزادی کی تاریخ میں ہی نہیں بلکہ عالمی تحریکات آزادی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی سے عام بیداری پیدا ہوئی، یہیں سے روح ملی یہیں سے غذا فراہم ہوئی، اسی ولی اللّٰہی تحریک نے جہد آزادی کی زمین ہموار کی۔‘‘

  

https://en.wikipedia.org/wiki/Shah_Waliullah_Dehlawi
शाह वलीउल्लाह देहलवी
https://www.rekhta.org/ebooks/hazrat-shah-waliullah-dehlvi-shakhsiyat-wa-hikmat-ka-ek-ta-aruf-mohammad-yaseen-mazhar-siddiqi-ebooks
शाह वलीउल्लाह मोहद्दिस देहलवी : ई-पुस्तकें
https://www.rekhta.org/ebooks?author=shah-waliullah-mohaddis-delhvi&lang=hi

No comments: